2023-05-10 16:50:37
* Hindutva Real Terrorist*
*हिंदुत्व असली आतंकवादी*
*دی کیرالہ اسٹوری : بولی وڈ میں پروپیگنڈا فلمز کا پُرخطر رجحان*
*نئی دہلی : 10 مئی 2023ء*
بھارتی سنیما کو دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت کہا جاتا ہے۔ اعداد و شمار بھی اس مؤقف کی ایک حد تک حمایت کرتے ہیں ، مگر آج یہ صنعت دیگر فلم انڈسٹریز کی رہنمائی کرنے کے بجائے خود بے سمتی کا شکار نظر آتی ہے۔ ناقدین کے مطابق اس صورت حال کی بنیادی وجہ بی جے پی سرکار کی انتہاپسند اور قوم پرست سوچ ہے جس نے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فلمی صنعت کو بھی اپنا شکار بنا لیا ہے۔ اس کا نتیجہ اب پروپیگنڈا فلمز کی صورت سامنے آرہا ہے۔
گزشتہ دنوں ریلیز ہونے والی ہندی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ نے معاملے کی سنگینی کو مزید عیاں کردیا ہے۔ ’دی کشمیر فائلز‘ کی قوم پرستانہ سوچ کا تسلسل تصور کی جانے والی اس فلم نے ایک جانب جہاں ہندوستانی مسلمانوں کو الزامات کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے وہیں کیرالہ کی مذہبی ہم آہنگی کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
فلم میں اداکارہ ادا شرما نے کیرالہ سے تعلق رکھنے والی ، نرس بننے کی خواہش مند ایک ایسی ہندو لڑکی کا کردار نبھایا ہے جو اب افغانستان کی جیل میں قید ہے اور اپنی دہشت گردوں سے وابستگی کی سنسنی خیز کہانی بیان کررہی ہے۔ یہ فلم ایسی ہندو اور مسیحی لڑکیوں کے گرد گھومتی ہے جنہیں محبت کے جال میں پھنسا کر پہلے اسلام قبول کروایا جاتا ہے اور بعدازاں عالمی انتہاپسند تنظیم کا حصہ بناکر افغانستان ، شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔
’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے ہدایت کار سدپتو سین کا آغاز ہی سے دعویٰ تھا کہ یہ فلم حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ البتہ جس طرح ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر اور ایک مخصوص زاویے سے پیش کیا گیا ، اس پر مختلف طبقات کو شدید تحفظات ہیں۔ مسلمانوں کے علاؤہ روشن خیال ہندو تنظیموں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی ان واقعات کو غیرحقیقی قرار دیا گیا ہے۔
اسی بنیاد پر جمعیت علماء ہند نے بھارتی سپرپم کورٹ میں فلم کی نمائش روکنے کی درخواست دائر کی تھی۔ ان کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ فلم ساز وضاحت جاری کریں کہ یہ حقیقت کے بجائے فکشن پر مبنی ہے۔ سپریم کورٹ نے تکنیکی بنیادوں پر اس درخواست کو خارج کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو کیرالہ ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ البتہ وہاں بھی درخواست گزاروں کی شنوائی نہیں ہوئی اور فلم 5 مئی کو ریلیز ہوگئی جس کے بعد تنازع نے مزید شدت اختیار کرلی۔
’لو جہاد‘ جیسے متنازع اور مبہم موضوع کے گرد گھومنے والی سدپتو سین کی اس فلم کا ٹیزر گزشتہ برس نومبر میں ریلیز کیا گیا تھا جس میں یہ سنسنی خیز دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ فلم نہ صرف حقیقی واقعے پر مبنی ہے بلکہ کیرالہ اور اس کے گردو نواح سے تعلق رکھنے والی 32 ہزار معصوم لڑکیاں ’لوجہاد‘ نامی اس ’سازش‘ کا شکار بن کر جنگ زدہ علاقوں میں دفن ہوچکی ہیں۔
اس ٹیزر پر رائے عامہ تقسیم ہوگئی۔ ایک جانب جہاں مسلم مخالف گروہوں کی جانب سے اسے سراہا گیا ہے وہیں مسلمان اور روشن خیال طبقے کی جانب سے 32 ہزار لڑکیوں کی گمشدگی کے دعوے کو گمراہ کن ٹھہراتے ہوئے حقائق کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
جب آزاد مبصرین نے ہدایت کار کے دعوے پر سوال اٹھایا تو ان کی جانب سے کیرالہ کے کمیونسٹ رہنما اور سابق وزیراعلیٰ شنکرن اچتا نندن کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا جو کیرالہ کے اسلامی اسٹیٹ بننے کے خدشے پر مبنی تھا۔ ساتھ ہی ہدایت کار نے سابق وزیراعلیٰ اومین چاندے کے انڈیا ٹوڈے میں شائع ہونے والے کیرالہ کی خواتین میں قبول اسلام کے بڑھتے رجحان سے متعلق بیان کو اپنی فلم کی بنیاد کہا ہے۔ البتہ آزاد میڈیا اور فیکٹ چیک کرنے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی جانب سے یہ نشان دہی کی گئی ہے کہ مذکورہ بیان میں نہ تو 32 ہزار کی تعداد کا ذکر تھا ، نہ ہی ان نومسلم خواتین کی انتہا پسند تنظیموں سے کسی قسم کی وابستگی کا انکشاف کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ فلم ساز دراصل شنکرن اچتا نندن کے کیرالہ کے اسلامی اسٹیٹ بننے کے بیان کو بھی غلط تناظر میں پیش کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب فلم ساز نے 32 ہزار کی متنازع تعداد کو اپنے تخلیقی کام کا موضوع بنایا۔ 2018ء میں اپنی ایک دستاویزی فلم ’ان دی نیم آف لو‘ کے لیے بھی سدپتو سین نے ان ہی بے بنیاد اعدادوشمار کا سہارا لیا تھا۔
اس ٹیرز پر تنقید کرنے والوں نے یہ نشان دہی بھی کی کہ کیرالہ پولیس کے پاس کبھی ان ہزاروں خاتون کی پراسرار گمشدگی کی رپورٹ درج نہیں ہوئی۔ ناقدین امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی دہشت گردی سے متعلق سال 2020ء کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس میں آئی ایس آئی ایس میں شمولیت اختیار کرنے والے بھارتیوں کی کل تعداد 66 بتائی گئی تھی۔ اس رپورٹ کو بعد ازاں ہندوستان ٹائمز سمیت بھارت کے کئی معتبر اخبارات نے بھی شائع کیا تھا۔
7 views13:50