Get Mystery Box with random crypto!

جس طرح پیش ( ضَمَّه ) کے لئے _ٌ يا _ُ اور زير ( كَسْرَه ) کے ل | آؤ عربی سیکھیں

جس طرح پیش ( ضَمَّه ) کے لئے _ٌ يا _ُ اور زير ( كَسْرَه ) کے لئے -ٍ يا -ِ کی علامتیں واحد ، جمع مکسّر اور جمع سالم مونث کے آخر میں لگتی ہیں ۔ اس ہی طرح زبر ( فَتَحَه ) کی علامت واحد ، جمع مکسر کے آخری حرف پر لگتی ہیں ۔ یعنی خاص نام اور عام نام بغیر " ال " کے آخری حرف پر اور جمع مکسر بغیر " ال " کے آخری حرف پر زبر ( فَتَحَه ) دو زبر ـً اور جب " ال " ہو يا مضاف ہو تو ایک زبر ـَ لگتا ہے ۔ اور جمع سالم مذکر و مونث اور مثنى کے لئے زبر کی وہی علامت مانی جاتی ہے جو زیر کے لئے ہوتی ہے ۔ جیسے ( مسلمِينَ ، مسلماتٍ ، مسلمَينِ )

اب آپ کو یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اسم میں زبر ( فَتَحَه ) کی علامت کب لگتی ہے ، اور جس کی ایک وجہ آپ جانتے ہیں ۔ لیکن آج سبق میں آگے بڑھنے سے پہلے چند مخصوص اسموں کی مخصوص علامتیں معلوم کرلیں تو آگے بڑھیں ۔ دیکھئے آج کے سبق میں یہ تین لفظ اَخٌ ( بھائی ) اَبٌ ( باپ ) ذُو ( والا ، مالک ) لکھے ہوئے ہیں تو یہ اپنی اس شکل میں اور جمع اخوۃ ، اخوان اٰباء کی شکل میں تو دو پیش ، دو زبر ، دو زیر ، کی حرکت قبول کرتے ہیں ۔ لیکن جب یہ واحد ہوتے ہوئے کسی اسم کی طرف مضاف ہوتے ہیں تو ان کے آخر میں پیش کے لئے " واؤ " اور زبر کے لئے " الف " اور زیر کے لئے " یاء " بڑھا لیتے ہیں ۔ اور " ذو " تو " واؤ " کے ساتھ ہے ہی ۔ اس کو زبر کے لئے " الف " سے اور زیر کے لئے " ياء " بدل دیں گے ۔ جیسے ۔ اَخُوْ زیدٍ مریضٌ ( زید کا بھائی بیمار ہے ) زید ذاهب الى اَخِى حامد ( زید ، حامد کے بھائی کے پاس جانے والا ہے ) مثالوں سے اس کو پیش ، زبر ، زیر ، تینوں حالتوں میں آگے تفصیل سے سمجھ لیجئے گا ۔ ان شاء اللہ

آئیے ، اب معلوم کریں کہ اسم زبر کی حالت میں کب کب ہوتا ہے ۔ تو اس کے موقع بہت ہے ۔ لیکن آج صرف ایک موقع پر زبر کی علامت کو سمجھ لیا جائے تو بہتر ہے ۔ سبق کے شروع میں اِنَّ ، اَنَّ ، کَاَنَّ ، لٰکِنَّ ، لَیْتَ ، لَعَلَّ ، کے چھ الفاظ معنی کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں ۔ ان کا نام رکھ لیجئے" اِنَّ اور اس کے بھائی بند "

اِنَّ ، لَيْتَ ، لَعَلَّ جملے کے شروع میں آتے ہیں ۔ اَنَّ ، کَاَنَّ ، لٰکِنَّ دوسرے جملے کے شروع میں آتے ہیں یعنی ان سے پہلے اور ایک جملہ ہوتا ہے ۔ اور پہلے والے اسم کو جس کی حالت بیان کی جاتی ہے ۔ اس کو زبر کی حالت میں کردیتے ہیں ۔ اور جو لفظ حالت یا صفت ظاہر کرتا ہے اس کو پیش کی حالت میں رہنے دیتے ہیں ۔ جیسے زیدٌ عالمٌ ( زید عالم ہے ) ایک جملہ ہے اس کے شروع میں اِنَّ لگا لیجئے تو یہ اِنَّ زیدًا عالمٌ ( بیشک زید عالم ہے ) ہو جائے گا ۔ اس طرح کَاَنَّ وغیرہ کا طریق استعمال ہے ۔ لیکن اِنَّ اور اس کے بھائی بند ضمیر سے پہلے آئیں تو جو ضمیریں آپ نے زیر کے لئے پڑھی ہیں ، وہی زبر کے موقع پر ، یعنی اِنَّ وغیرہ کے بعد استعمال کیجئے لیکن ترجمہ اس طرح کیجئے جس طرح هُوَ وغیرہ کا کیا جاتا ہے ۔ جیسے هُوَ مریض ،( وہ بیمار ہے ) ایک جملہ اس سے پہلے اِنَّ وغیرہ میں سے کسی کو استعمال کریں تو هُوَ کی جگہ ہٗ لاکر اِنَّهٗ مریض ( بیشک وہ بیمار ہے ) اس مثال کے ترجمے پر غور کیجئے ۔ یا جیسے ۔ اَنتَ عاقل ( تو عقلمند ہے ) سے پہلے اِنَّ کا استعمال یا اُسکے بھائی بند استعمال کیجئے تو انكَ عاقل ( یقیناً تو عقل مند ہے ) وغیرہ ۔ اس مثال کے ترجمے پر غور کیجئے ۔

ان کے متعلق آج کے سبق میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ ان سے بنے ہوئے جملے کے دوسرے لفظ یعنی حالت یا صفت ظاہر کرنے والے لفظ پر کبھی " لَ " مزید تاکید کے لئے لگا دیتے ہیں ۔ مگر اس " لَ " سے اسم کی علامت پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے ۔ یعنی وہ پیش کی علامت کے ساتھ ہی رہے گا ۔ جیسے ۔ ان الساعةَ لَآتيةٌ ( بیشک قیامت آنے والی ہے ) و انه لَغَنِىٌّ عن العالمين ( یقیناً وہ تمام جہانوں سے بےنیاز ہے )

منادٰى کے آخری حرف پر جو حرکت یا علامت آپ پچھلے سبق میں جان چکے ہیں ۔ اس کا ایک طریقہ ہم نے چھوڑ دیا تھا وہ یہ کہ اگر منادٰى مضاف ہو تو اس کے آخری حرف پر کیا علامت لگتی ہے ؟؟؟ جب مضاف اور مضاف الیہ سے میل کر منادٰى بنتا ہے تو مضاف کے آخری حرف ایک زبر ہوتا ہے ۔ اور منادٰى غیر متعین شخص ہو یعنی عام ہو اور " ال " سے خالی ہوتو اس کے آخری حرف دو زبر ہوتے ہیں ہے ۔ جیسے یا صدیقَ حامد ( اے حمید کے دوست ) یا رجلًا ( اے کوئی آدمی ! ) اور اخ ، اب ، ذو ، مضاف الیہ کے ساتھ منادٰى ہو تو اخا ، ابا ، ذا ، ہو جائیں گے ۔ لیجئے اب آپ کے لئے نمونے کے چند جملے لکھے جاتے ہیں ان کو پڑھ کر اوپر کی تمام چیزوں کو اچھی طرح سمجھ لیجئے ۔